سوڈان: ملین مارچ کے بعد انقلاب کا مستقبل ؟

30جون کے روز لاکھوں محنت کشوں، کسانوں اور غریب عوام نے سوڈان کے طول و عرض میں عبوری فوجی کونسل (TMC)میں منظم جابر و خونریز فوجی آمریت کے خلاف احتجاج کیا۔

[Source]

پورے ملک میں نوجوان، بوڑھے اور خواتین انتہائی جرات کے ساتھ ردِ انقلابی قوتوں کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے۔ فلک شگاف نعرے۔۔”آزادی!“، ”عوامی حکومت“ اور ”کباشی جھوٹے، ہمارا انقلاب تو ابھی شروع ہوا ہے!“۔۔عوام کی جرات، بہادری اور حوصلے کا حقیقی ثبوت ہیں۔ عبوری کونسل کی وفادار مسلح قوتوں نے پورے ملک میں عوام پر حملے کئے جس کی وجہ سے 7 افراد شہید اور کئی سو زخمی ہو گئے لیکن پھر بھی تحریک مضبوط و توانا رہی۔ تاریخی انقلابی شہر عطبرہ میں نعرے بلند تھے کہ ”گولی قتل نہیں کرتی۔خاموشی قتل کرتی ہے۔اتبارا باہر نکل آیا ہے، اتبارا باہر نکل آیا ہے!“۔

اگرچہ شرکت کے اعدادوشمار کا حساب لگانا ناممکن ہے لیکن وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ یہ تاریخی احتجاج تھے اور شاید سوڈانی پروفیشنل ایسوسی ایشن(SPA) کے ہدف 10لاکھ افراد سے زیادہ پر مشتمل تھے۔ عوامی احتجاجوں کی خبر ربک، حلفا، جبرا، ارکویت۔البلابل، عطبرہ، نوری، الشجرہ، الصحافہ، الاسکان، الا بیض، کوزہ، کسلا، الروسیریس، دنقلا، ود مدنی، بری، کریمہ، سوق العربی، خرطوم، ام درمان۔ود نبوی اور پورٹ سوڈان شہروں سے موصول ہوئی ہیں۔

احتجاجوں کا یہ تاریخی دن اور بھی متاثر کن تھا کیونکہ 3 جون کو عبوری کونسل سے منسلک ریپڈ سپورٹ فورسز (RSF) کے قاتلانہ حملے کے نتیجے میں کئی سو افراد قتل، اس سے زیادہ زخمی اور درجنوں ریپ ہوئے تھے۔ اس کے بعد کئی ہفتے ردِ انقلابی قوتوں نے ریپ، تشدد اور بے پناہ لوٹ مار کی خوفناک ہولی کھیلی۔ کل کے احتجاج میں عوام پر خونریز حملے کرنے کے حوالے سے عبوری حکومت نے اپنے ارادے واضح کر رکھے تھے۔ مڈل ایسٹ آئی ویب سائٹ کو ایک فوجی افسر نے نام نے ظاہر کرتے ہوئے بتایا کہ ”عبوری کونسل کے پاس 30 جون کے احتجاجوں پر خونریز حملوں میں مزید اضافے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں اور درحقیقت وہ اس کی بھرپور تیاری کر رہی ہے“۔ بہرحال فوجی افسر کا مزید کہنا تھا کہ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ عبوری کونسل کو جبر کے لیے پولیس پر کوئی اعتماد ہے۔ اس وجہ سے پیچھے RSF کے باولے کتے ہی اس کام کے لئے بچے تھے۔

لیکن عوام کو خوفزدہ کرنے کے بجائے قتل و غارت، ریپ اور دھمکیوں کا الٹا ہی اثر پڑا۔ عبوری کونسل کی روزانہ دھمکیوں اور تشدد کے باوجود کل کے واقعات کے لئے انقلاب کئی ہفتوں سے تیاری کر رہا تھا۔ عبوری کونسل نے بجلی اور انٹرنیٹ بھی منقطع کر دیا جس کی وجہ سے عوام کو یہ بھی نہیں پتہ تھا کہ کیا تیاریاں چل رہی ہیں، کتنے لوگ سڑکوں پر آئیں گے اور کیا صرف وہی سڑکوں پر ردِ انقلابی قوتوں کو نشانہ بنیں گے۔ خرطوم میں شہر کے سب سے بڑے مظاہرے ہوئے اور کئی لوگ دنوں کا سفر طے کر کے یہاں پہنچے۔

بڑھتی تنظیم کاری

احتجاج کی تیاریوں کے دوران تشدد اور میڈیا بلیک آؤٹ کی وجہ سے انقلاب کو زمین پر اپنے آپ کو اور زیادہ منظم اور مضبوط کرنا پڑ رہا ہے۔ SPA کے قائد میدانی عباس نے مڈل ایسٹ آئی کو بتایا کہ ”انٹرنیٹ کی بندش اور خرطوم کی سڑکوں پر سرگرم کارکنان اور لیڈران پر چھاپوں اور پکڑ دھکڑ کے باوجود ہم لوگوں کے محلوں تک پہنچ کر عوامی میٹنگز منظم کر کے تیاری کر سکتے ہیں“۔

انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی عدم موجودگی میں SPA نے محلہ جاتی دفاعی کمیٹیوں کے ذریعے اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ یہ کمیٹیاں اس وقت ہر جگہ پھیل چکی ہیں اور کئی جگہوں پر تحریک کو منظم کرنے کا کردار اختیار کررہی ہیں۔ SPA کے قائدین نے کئی شہروں اور علاقوں کے دورے کئے جن میں کئی سو افراد کے ساتھ تحریک کی حالیہ صورتحال اور اسے مزید مہمیز دینے پر میٹنگ اور بحث مباحثے منظم کئے گئے۔ دن میں احتجاج کرنے پر ممانعت کی وجہ سے کمیٹیوں نے رات میں اکٹھ اور احتجاج بھی منظم کئے تاکہ کل کے احتجاج کی تیاری کی جا سکے۔

آہستہ آہستہ 3 جون کے صدمے سے باہر آتے ہوئے تحریک ایک بار پھر پر اعتماد ہونا شروع ہو گئی۔ ملک میں عوامی موڈ کیا ہے اس کا ایک پرجوش اور حوصلہ مند منظر اس وقت دیکھنے کو ملا جب دو کالجوں کے طلبہ کے احتجاجی مارچ ایک جگہ پر آمنے سامنے ہوئے اور ایک دوسرے میں گڈ مڈ ہو کر خوشیاں منانے لگے۔

قیادت

انقلاب کی پیدائش سے اس کی قیادت SPA کے ہاتھوں میں ہے۔ یہ مقام اس نے 2018ء میں ڈاکٹروں اور دیگر پیشہ ورانہ افراد کے شاندار احتجاجوں میں اپنے انقلابی کردار کی وجہ سے حاصل کیا۔ اس وجہ سے انہیں افرادی قوت کے حوالے سے بڑی کمیونسٹ پارٹی سے زیادہ پذیرائی حاصل ہوئی جو کہ پچھلے طویل عرصے سے ایک کمزور اور اصلاح پسند پروگرام کا بوجھ کندھوں پر اٹھائے رینگ رہی ہے۔ دوسری طرف دسمبر 2018ء میں عطبرہ میں شروع ہونے والے حالیہ انقلاب میں SPA نے فوری مداخلت کرتے ہوئے بھرپور حمایت کی اورآمریت کا تختہ الٹتے ہوئے عوامی حکومت کا مطالبہ کر دیا۔ پچھلی آمریت سے مکمل ناطہ توڑنے اور ایک نئی شروعات کرنے کی ریڈیکل حکمتِ عملی کی وجہ سے ہی SPA قیادت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ یہ قیادت انقلاب کے ہر مرحلے میں اور بھی زیادہ مقبول اور مضبوط ہوئی ہے کیونکہ انہوں نے انقلاب کو ریڈیکل عوامی احتجاجوں سے لے کر عام ہڑتال تک منظم کیا ہے۔

لیکن احتجاج کی مختلف شکلوں کے علاوہ SPAانقلاب کو آگے بڑھانے کے حوالے سے کمزور رہی ہے۔ اپریل میں عبوری کونسل کے ہاتھوں عمر بشیر کی معزولی کے بعد سےSPA قیادت نے کونسل سے ہی مذاکرات کئے ہیں جو کہ بشیر دورِ حکومت کے عسکری قائدین اور دیگر جنگجوؤں پر مشتمل ہے۔ پھر مئی کے آخر میں عبوری کونسل کے خلاف SPA نے دودن کی عام ہڑتال کا اعلان کر دیا۔ کئی سالوں بعد یہ پہلی منظم سیاسی عام ہڑتال تھی جس نے واضح طور پر اقتدار کا سوال سامنے لا کھڑا کر دیا تھا۔ پورے ملک میں واضح تھا کہ طاقت کی دوئی موجود ہے جس میں ریاست اور SPA اقتدار کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ درحقیقت، تمام اہم وزارتیں ہڑتال کے دوران SPA کے احکامات مان رہی تھیں جبکہ ائر لائن ملازمین، بندرگاہ کے ملازمین اور دیگر شعبہئ زندگی کے افراد بھی ساتھ شامل تھے۔ محنت کش اور غرباء بغاوت میں اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ لیکن اپنے ہاتھوں میں دو دن طاقت مرتکز کرنے کے بعد SPA نے تحریک یہ کہہ کر ختم کر دی کہ مستقبلِ قریب میں پھر ایک نئی ”عوامی بغاوت“ کا اعلان کیا جائے گا۔

عبوری کونسل نے اس اقدام کو کمزوری جانا اور محمد حمدان دگالو (المعروف ہمیتی) اور اس کے قبیلے پر مشتمل RSF نے خوفناک ردِ انقلاب کی تیاری شروع کر دی۔ 3 جون کے حملے میں انہوں نے کئی سو انقلابیوں کو شہیداور ہزاروں کو زخمی کر دیا۔ اس کے بعد کئی ہفتوں تک پورے ملک میں کئی سو افراد کو قتل، مار پیٹ، ریپ، ڈرا دھمکا کر اور سڑکوں پر انقلابیوں کا پیچھا کر کے خوف و ہراس پھیلایا گیا۔

ایک بار پھر SPA تذبذب کا شکار رہی اور اس نے 9 جون کی عام ہڑتال کی کال دی۔۔ایک ہفتہ گزر جانے کے بعد! لیکن فوری کامیابی اور لوگوں کی قابلِ ستائش بہادری کے بعد بھی اس ہڑتال کو فوراً ختم کر دیا گیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ SPA عبوری کونسل اور ایتھوپیا سے آئی مذاکراتی وفد کو خیر سگالی کا پیغام دینا چاہتے تھے جو عبوری کونسل اور SPA درمیان مذاکرات کروا کر ایک عبوری حکومت کے قیام کی کوششیں کر رہا تھا۔ عبوری کونسل اور ایتھوپیائی مذاکراتی ٹیم کا عام ہڑتال ختم کرنے کا مطالبہ درحقیقت اس آگ کو بجھانے کی کوشش تھا جو آمریت اور افریقی حکمران طبقے کے لئے موت کا پیغام تھی کیونکہ انہیں یہ خوف تھا کہ کہیں سماج میں یہ سوچ نہ پھیل جائے کہ ایک سماج کو مالکان، اکابرین اور مقامی اور عالمی سرمایہ داروں کے خلاف بھی چلایا جا سکتا ہے۔

SPA نے عبوری کونسل کے ساتھ مذاکرات شروع کر دیے جو بارہا ثابت کر چکی ہے کہ وہ خالصتاً ایک ردِ انقلابی قوت ہے۔ عبوری کونسل اور عوام کے مفادات یکسر مختلف ہیں لیکن پھر بھی ابھی تک SPA اس کے ساتھ اقتدار میں حصہ داری کے لئے مذاکرات کر رہی ہے۔

دیو ہیکل سرگرمیوں۔۔کل کا احتجاج، عام ہڑتال کے دنوں میں یا بشیر کے اقتدار کے آخری دنوں میں۔۔SPA عام سپاہیوں کو اپیل کرسکتی تھی کہ وہ منظم ہو کر انقلاب میں شامل ہوں جس کے نتیجے میں عسکری اور عوامی کونسلوں کو قومی سطح پر منسلک کرتے ہوئے پورے ملک کے کلیدی انفراسٹرکچر پر براہِ راست قبضہ کیا جا سکتا تھا۔ یہ کام قدرے آسان اور قدرے پرامن ثابت ہو سکتا تھا۔ RSF جیسی رجعتی قوتوں کو مسلح عوام مسلح سپاہیوں کی حمایت کے ساتھ باآسانی غیر مسلح کر سکتی تھی۔ یہ کوئی ڈھکا چھپا راز نہیں کہ سپاہیوں کی اکثریت عبوری کونسل کے بجائے انقلاب کے ساتھ ہمدردیاں رکھتی ہے۔ لیکن اگر ان سے پرجوش اپیل نہیں کی جاتی اور ان تک پہنچنے کی حقیقی کوشش نہیں کی جاتی تو وہ اپنی بیرکوں میں اسی خوف سے بند رہیں گے کہ بغاوت کے نتیجے میں ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا۔ پرامن رہنے کے چکر میں SPA عام محنت کشوں اور غرباء کو بنیادی مدافعانہ اقدامات بھی نہیں اٹھانے دے رہی۔ بھرپور اور مرحلہ وار انداز میں اقدامات کرنے کے بجائے SPA کسی بھی فیصلہ کن لمحے سے پہلے تذبذب کا شکار ہو جاتی ہے جیسے کہ حالیہ 30 جون احتجاجوں کے لئے عبوری کونسل کو ”قانونی درخواست“ پیش کی گئی کہ مظاہرین کو تحفظ فراہم کیا جائے گا۔

لیکن اب تک یہ سب کو واضح ہو جانا چاہیے کہ عبوری کونسل کے نزدیک قانون کی کوئی اوقات نہیں (یا انقلاب کے لئے بھی جو حکمران طبقے کے باطل قوانین کو توڑتے ہوئے ان کے خاتمے کا مطالبہ کر رہا ہے)۔ قانونی چالبازیوں اور امن کی اپیلوں سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ مٹھی بھر رجعتی فوجی افسران نے لاکھوں کروڑوں محنت کشوں، کسانوں اور غرباء کے جمہوریت اور بہتر زندگی کے خوابوں کو خون میں ڈبونے کی بارہا کوششیں کی ہیں۔

قانون اور سطحی اخلاقایات انقلاب میں بے معنی ہیں جس میں دو متحارب طبقات برسرِ پیکار ہیں۔ سوڈان میں ایک طرف عبوری کونسل ہے جو پرانی آمریت کے قصائیوں اور خونخوار بھیڑیوں پر مشتمل ہے جس میں امیر سرمایہ دار، عالمی سرمایہ داروں کی کٹھ پتلیاں، قبائلی سردار، جنگجو اور اسلامی انتہا پسند شامل ہیں۔ یعنی وہ تمام رجعتی قوتیں جو اپنے خود غرضانہ مفادات کے لئے پورے ملک کو خون میں ڈبونے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔

دوسری طرف لاکھوں کروڑوں محنت کش، کسان، غرباء، نوجوان اور خواتین موجود ہیں جو جمہوریت، اچھی زندگی اور ملک کو بربریت، روایات کی قیدو بند اور عمومی آلام و مصائب سے آزاد کرانے کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ یہ دو متحارب سوچیں، قوتیں کبھی بھی کسی سمجھوتے پر نہیں پہنچ سکتیں۔ ردِ انقلاب کو اس حقیقت کا بھرپور ادراک ہے اور وہ اپنے اقتدار کو قائم رکھنے کے لئے کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں، کسی بھی حد کو پار کرنے کے لئے تیار ہیں۔

کل کی تحریک نے سوڈانی عوام کی بے پناہ بہادر ی اور صلاحیت کو ہر شک و شبہ سے بالاتر ثابت کر دیا ہے۔ لیکن عوام اور ان کے قاتلوں کی کوئی مشترکہ حکومت نہیں ہو سکتی۔ پچھلے کچھ دنوں میں ایتھوپیائی حکومت اور افریقی یونین (AU) نے مشترکہ مذاکراتی کردار ادا کرنے کی پیشکش کی ہے۔ اس پیشکش کے مطابق ایک ایسی حکومت تشکیل دی جائے گی جس میں سات وزارتیں عبوری کونسل اور سات وزارتیں اتحاد برائے آزادی اور تبدیلی (AFC، کثیر تنظیموں اور گروپس کا اتحاد جس کی قیادت SPA ہے)کے پاس ہوں گی جس کی قیادت کوئی مشترکہ نمائندہ شخصیت ہو گی۔ لیکن یہ ترکیب کسی مسئلے کا حل نہیں۔ ہم بارہا دیکھ چکے ہیں کہ عبوری کونسل اقتدار میں کسی قسم کی حصہ داری کے لئے تیار نہیں۔ عبوری کونسل کے ساتھ کوئی بھی معاہدہ کرنے کا مطلب انقلاب کو تھکانا اور اسے مایوس کرنا ہے جبکہ ردِ انقلاب کو بھرپور تیاری کرنے کا موقع مل جائے گا۔

محلہ جاتی دفاعی کمیٹیوں، ہڑتالی کمیٹیوں اور دیگر انقلابی تنظیموں کو مقامی اور قومی سطح پر ایک دوسرے کے ساتھ منسلک اور منظم کرتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت بن چکا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سپاہیوں میں ایک بھرپور اور پرجوش مہم فوری طور پر شروع کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ اپنی سپاہی کمیٹیاں تشکیل دیتے ہوئے انقلابی تحریک کے ساتھ منسلک ہوں۔ عوامی دفاعی کمیٹیاں اور سپاہی کمیٹیاں مشترکہ لائحہ عمل کے ذریعے RSF اور تمام ردِ انقلابی قوتوں کو غیر مسلح کرنے کی مہم شروع کریں، قتل و غارت گری اور دیگر جرائم کے مرتکب تمام افراد کی گرفتاریں کریں اور ان سب پر مقدمات چلائیں۔

سوڈانی انقلاب پورے افریقہ، مشرقِ وسطی اور پوری دنیا کی عوام کے لئے حوصلہ مند مشعل راہ بن چکا ہے۔ چند مہینوں میں سوڈانی عوام نے وہ کچھ حاصل کر لیا ہے جو دہائیوں این جی اوز اور لبرل اپیلیں حاصل نہیں کر سکیں۔ آگے بڑھنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے۔ انقلاب کو اس کے منطقی انجام تک پہنچانے کے لئے پوری سرمایہ دارانہ ریاست کو ہی اکھاڑ پھینکا جائے جس نے پوری قوم کو نسل در نسل غلام بنا کر رکھا ہوا ہے!