بدلتے رشتے
ایک وقت تھا جب سفارش سے بڑے کام کروائے جاتے تھے۔ ان زمانوں میں منافع خوری کے لئے ذخیرہ اندوزی بھی ہوا کرتی تھی۔ آج کے زمانے میں یہ طریقے بہت ’’کمزور‘‘ ہوگئے ہیں۔ حکمران طبقے اور سامراجی کمپنیوں کی شرح منافع میں اضافہ اب ذخیر اندازی جیسے ’’قدیم‘‘ طریقوں سے ممکن نہیں رہا ہے۔ ماضی کی چوری چکاری اب معاشی ڈاکہ زنی میں بدل چکی ہے۔ ذات برادری، رشتہ داری یا دوستی کے رشتوں کو سرمائے کے جبر نے کچل دیا ہے۔ سرمائے کے بڑھتے ہوئے سماجی و اخلاقی کردار کی وجہ سے نوکریاں اب بکتی ہیں یا پھر سفارش کا تبادلہ سفارش سے کرنا پڑتا ہے۔ کام کے بدلے ہی کام ہوتا ہے۔ خونی رشتوں کی گرمائش بھی سرد پڑ گئی ہے۔ دوستیاں بڑی عریانی سے مطلب پرستی میں بدل گئی ہیں۔ باہمی گفتگو کے معیار گر کر مطلب اور ’’مقصد‘‘ تک محدود ہوگئے ہیں۔ معاشی اونچ نیچ نہ صرف سماجی رتبے کا پیمانہ بن گئی ہے بلکہ ہر رشتے میں سرایت کرکے جذبات کو مفلوج اور مادی مفادات کے تابع کررہی ہے۔