’’مذاکرات‘‘ اور ’’جنگ‘‘ کا کھلواڑ
طالبان کے ساتھ ’’مذاکرات‘‘ اور ’’جنگ‘‘ کا معاملہ سٹینڈ پر کھڑے اس سائیکل کے مانند ہے جس کا پہیہ تو گھوم رہا ہے لیکن باقی سب کچھ ساکت ہے۔ ’’اچھے طالبان‘‘ اور ’’برے طالبان‘‘ کی بے معنی اصطلاحات ایک بار پھر استعمال کی جارہی ہیں۔ یہاں ’’اچھائی‘‘ اور ’’برائی‘‘ مطلق نہیں بلکہ اضافی ہے۔ امریکی سامراج کے پالے ہوئے طالبان پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کوبرے لگتے ہیں جبکہ پاکستانی ریاست کے ’’اسٹریٹجک اثاثے‘‘ امریکیوں کی نظر میں برے ہیں۔ پھر مذہبی جنونیوں کے کچھ مسلح گروہ ایسے بھی ہیں جو دونوں قوتوں کے لئے بیک وقت اچھے یا برے ہیں۔ اچھے برے طالبان کی پیچیدگیوں میں پھنسے ہوئے پاکستانی حکمرانوں کے بے حسی دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ نہ تو ان میں دہشتگردی اور مذہبی انتہا پسندی کے عفریت پر قابو پانے کی صلاحیت ہے اور نہ ہی نیت۔ ان کے بیانات ریڈیو پاکستان یا پی ٹی وی کے خبرنامے سے مختلف نہیں ہیں جو 67 سالوں میں تبدیل نہیں ہوا۔ حکمرانوں کے چہرے بدل جاتے ہیں، عادات و اطوار اور طریقہ کار وہی رہتا ہے۔ میڈیا کی آزادی کا بہت شور ہے لیکن ’’آزادی‘‘ کی انتہاؤں پر بھی اس نظام کی تنگ حدود سے آگے کی بات کرنا کم و بیش ناممکن ہے۔